بیوی
![Image](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh9BywcS1lFB2P8o49OzP0XeUHkqGMzXX9BnrET1W5-Mtf-AKe0t0oqPL17ObNbxu2s74MGuCbaUrJ30PR48jviCQqg4X_oL2KD1h8VJS8Va0hdQBdPAf7AV1O8SP29EJ1FeIK-XIX0yE6-/s320/A07CE9B9-DA61-489B-9034-1474B4634811.jpeg)
اردو ميں جسے ہم “بيوی ” بولتے هيں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں 1- إمراءة 2- زوجة 3- صاحبة 1 إمراءة : امراءة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو 2 زوجة : ايسی بيوی جس سے ذہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذهنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو 3 صاحبة : ايسی بيوی جس سے نه جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے : 1- امراءة حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام كی بيوياں مسلمان نہیں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو " امراءة نوح " اور " امراءة لوط " كہہ كر پكارا هے، اسی طرح فرعون كی بيوی مسلمان هو گئی تھی تو قرآن نے اسكو بھی " وامراءة فرعون" کہ كر پكارا هے (ملاحظه كريں سورة التحريم كے آخری آيات ميں) یہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تهيں ليكن ذهنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا 2- زوجة : جہاں جسمانی اور ذہنی پوری طرح ہم آہنگی ہو وہاں بولا گيا جيسے ( ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭ ﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ ) اور نبی صلی اللّٰہ عليه و سلم كے بارے فرمايا ( يأيها ال...