Swati Qabeela
سواتی قبیلہ کی 1647 میں ھزارہ پر لشکر کشی واقعات:::
سواتی پختون قبیلہ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے دوران سلطان محمود غزنوی کے لشکر میں شامل تھے۔ ہندوستان پر قبضے کے بعد سواتی قبائل کی باجوڑ ملاکنڈ دیر سوات شانگلہ بونیر کے علاقوں پر مشتمل ریاست قائم ہوئی یہ ریاست بعد میں موجودہ شمالی ھزارہ اور مغربی کشمیر تک پھیل گئ تھی اس ریاست کو تاریخ میں گبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو کہ گیارویں صدی عیسوی سے لے کر پندرویں صدی عیسوی تک قائم رہی 1526 میں مغل بادشاہ بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت ہندوستان پر لودہی پختونوں کی 150 برس سے حکومت قائم تھی آگرہ شہر کی بنیاد بھی بہلول لودھی نے رکھی تھی اور ریاست گبر سواتی قبائل نے پانی پت کے مقام پر مغلوں کے خلاف لودھی پختون حکمران ابراہیم لودھی کا ساتھ دیا تھا جب لودھی سلطنت کا خاتمہ ہوا اس وجہ سے مغلوں اور سواتی قبائل میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا تھا مغل حکمران بابر نے یوسف زئ قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر ریاست سوات پر لشکر کشی کی سات سالوں کی شدید لڑائیوں کے بعد مغلوں اور یوسف زئوں نے سواتی لشکر کو انتہائی شمال دیر اور شانگلہ کی طرف دھکیل دیا ریاست گبر سوات کا 1533 میں خاتمہ ہو گیا تاہم مغل اور یوسف زئ یہاں پر مستقل حکومت قائم نہیں کر سکے اور انہوں نے اس علاقے کی کمان یوسف زئ لشکر کے حوالے کی چونکہ مغل فوج میں یوسف زئ قبائل بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے اسی وجہ سے یہ علاقہ کئ دہائیوں تک یوسف زئ قبائل اور سواتی قبائل کے درمیان شورش زدہ رہا
1703 میں اورنگزیب عالمگیر کے وفات کے بعد مغل حکومت کمزور ہو گئ سکھوں اور مرہٹوں نے جگہ جگہ پر بغاوتیں شروع کی تھی رہی سہی کسر افغانستان کے بادشاہ ابدالی لشکر نے پوری کر دی تھی جس نے دہلی پر حملہ کر کے مغل حکمرانوں کو لعل قلعے کے اندر محصور کر دیا تھا ھزارا پر اس دور میں ترکوں کی حکومت تھی جو مغل ہی کی شاخ تھی یوں ہزارہ پر مغلوں کی گرفت کمزور ہونے لگی ترکوں کا دارلخلافہ میدان پکھل گلی باغ بفہ تھا جہاں پر آج بھی دیوان راجہ بابا کا مزار ہے سکھوں نے ھزارہ پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا اور ترک مسلمانوں کی حکومت انتہائی کمزور تھی یہ حالت دیکھ کر حضرت سید جلال بابا نے پیر بابا بونیر سے ھزارہ پر حملے کی درخواست کی سواتی قبا ئل پیر بابا کے مریدین تھے انہوں نے سواتی قبائلی لشکر کو ھزارہ پر حملے کیلیے کہا یہ لشکر ھزارہ کے شمال سے قلع جانچھل تھاکوٹ کے مقام پر حملہ آور ہوا اور آگے بڑھتا ہوا آلائ بٹگرام وادی کونش وادی اگرور وادی سرن وادی کاغان کو فتح کرتا ہوا میدان پکھل پہنچ گیا یوں جہاں پر ترک دارالحکومت قائم تھی اور بالآخر ان علاقوں کو فتح کر دیا گیا اس فتح کے بعد ان تمام علاقوں کو 12 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس میں 2 حصے سیدجلال بابا کو دئیے گئے 1 حصہ جلال بابا کے مرید مراد خانی قبیلے کو دیا گیا جبکہ باقی 9 حصے سواتی قبائل پر تقسیم کر دئیے گئے جہاں پر آج سواتی قبائل مالکان ہیں تاہم یہ بعد میں سکھوں برٹش کے حملوں کا شکار رہا 1831 میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے سکھ جرنیل رنجیت سنگھ کے خلاف بغاوت کی تھی مقامی سواتی قبائل نے بالاکوٹ کے مقام پر شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید کوپناہ دی تھی تاہم کچھ خانہ بدوشوں کی مخبری پر جب سکھ جرنیل رنجیت سنگھ نے بالاکوٹ پر میدان پکھل کے راستے کے ذریعے حملہ کیا تو مقامی سواتی لشکر نے سکھ گورکھا فوج کے خلاف شدید مزاحمت کی لیکن سکھوں کے مقابلے میں قبائلی فوج کم تھی بالآخر بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں کے خلاف سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے سر براہی میں میں مقامی سواتی قبائل نے جنگ لڑی جس میں سکھ فاتح قرار پائے اور سید احمد اور شاہ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ نے باقی بہت سے قبائلوں کے ساتھ شہادت کا رتبہ حاصل کیالیکن پھر بھی سکھ ان علاقوں پر قبضہ نہ کر سکے تاج برطانیہ کے دور میں بھی ھزارہ پر برطانوی فوج نے ان علاقوں پر لشکر کشی کی لیکن وہ بٹگرام تور غر اگرور پر قبضہ نہ جما سکے یہ علاقے علاقہ غیر کہلاتے تھے جہاں پر جرگہ نظام رائج تھا جبکہ میدان پکھل تک علاقہ برطانوی حکومت کے پاس چلا گیا تھا اور بعد میں ایک معاہدے کے تحت وادی پکھل میں تاج برطانیہ نے سواتی قبائل کے جاگیر کی آذاد حیثیت تسلیم کر لی انگریزوں نے جب گلاب سنگھ کو کشمیر 75 لاکھ روپے کے عوض بھیچا تو اس میں گھڑی حبیب اللہ بالاکوٹ کاغان تک کا علاقہ بھی کشمیر کے نقشے میں شامل کیا گیا تھا لیکن ۔مقامی سواتی قبائل نے ان علاقوں کا قبضہ اپنے پاس رکھا اور سواتی قبائل کے جاگیر کی آذاد حیثیت ان علاقوں میں قائم رہی
بحوالہ تاریخ ھزارہ پختون ۔۔۔
Comments
Post a Comment